دار الدراسة الإسلامية

ماہ رجب اور شب معراج کی فضیلت و حقیقت

ماہ رجب اور شب معراج کی فضیلت

 رجب اسلامی سال کا ساتواں قمری مہینہ ہے اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے اور شب معراج کی فضیلت بھی اسی مہینے سے متعلق ہے۔

نبیﷺ نے فرمایا

‘سال بارہ مہینوں کاہے جن میں سے چار حرمت والے ہیں’
لفظ رجب ترجیب سےماخوذ ہے کہ جس کے معنی تعظیم کے ہیں ،اس مہینے کی تعظیم اور حرمت کی وجہ سے اس کا نام ”رجب ” رکھا گیا کیوں عرب اس مہینے میں لڑائی سے مکمل اجتناب کرتے تھے۔

واقعہ معراج کو سمجھنے کیلئے پہلے یہ بات سمجھیں کہ

معجزہ کسے کہتے ہیں

کسی نبی یا رسول سے ایسے واقعہ کاظہور پذیر ہونا جو انسانی عقل وفکر سے بالاتر ہو ۔یہ خصوصی واقعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے تاکہ اس کے نبی یا رسول کی صداقت عام لوگوں پر واضح ہوجائے عمومی طور پر معجزے اس مخصوص زمانے اور حالات کے مطابق ہوتے ہیں جس میں وہ نبی یا رسول اپنی دعوت پیش کر رہا ہو ۔ قرآن مجید میں انہیں آیات (نشانیاں) قرار دیاگیاہے مختلف پیغمبروں کومختلف معجزے عطا ہوئے تھےتا کہ وہ ان کے ذریعے سےاللہ کی قدرت کالوگوں پراظہار کرسکیں۔ نبی کریم ﷺکوبھی کئی معجزوں سے نوازا گیا ان میں سے واقعہ معراج اورواقعہ شق  القمر زیادہ مشہور ہیں۔زیر نظر تحریر واقع معراج سے ۔متعلق ہے

 شب معراج کی فضیلت

واضح رہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کا “سفرِمعراج اور اسراء” بالکل برحق ہے ، اوراس واقعے کی تفصیل تقریباً پنتالیس صحابہ کرام سے منقول ہے، اس لئے اس کے انکار کی قطعاً گنجائش نہیں ہے ۔
رسول اللہ ﷺکو طائف کے دعوتی سفر سے واپسی پر جسم اور روح کے ساتھ بیداری کی حالت میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ اور پھر وہاں سے ساتوں آسمان ، سدرۃ المنتہی، جنت و جہنم اور جہاں تک اللہ نے چاہا ان مقامات کی سیر کرائی گئی، اس سفر کو “اسراء و معراج ” کہتے ہیں۔ معراج کی تاریخ میں علماء کا اختلاف ہے اور کئی اقوال کتب میں مذکور ہیں۔معراج کے واقعہ کا اجمالی خلاصہ یہ ہے کہ:

شب معراج کی رات خلاصہ

نبی کریم ﷺحضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے مکان میں استراحت فرمارہے تھے کہ کہ یکایک چھت پھٹی اور جبریل امین اترے، ان کے ہمراہ دیگر فرشتے بھی تھے، نبی کریم ﷺکو جگاکر مسجد حرام لے جایا گیا، وہاں آپ کے سینہ مبارک کو چاک کرکے قلب اطہر کو آب زمزم سے دھویاگیا، بعد ازاں آپ کی سواری کے لیے ایک بہشتی جانور لایا گیا، اور مسجد اقصیٰ کی جانب روانہ ہوئے ، اس راستے میں آپ کو عجائبات دکھلائے گئے، مختلف اقوام اور مختلف لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے مختلف سزاؤں میں مبتلا تھے، مسجد اقصیٰ پہنچ کر رسول اللہﷺنے انبیاء کی امامت فرمائی، اس کے بعد ملائکہ کی معیت میں آسمانوں کی جانب روانہ ہوئے، اور آسمانوں میں آپ ﷺنے مختلف انبیا ئے کرام حضرت آدم، حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ، حضرت یوسف، حضرت ادریس، حضرت ہارون، حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم علیہم الصلوات والتسلیمات سے ملاقات فرمائی۔بعد ازاں آپ ﷺکو سدرۃ المنتہیٰ کی طرف بلند کیاگیا، اس مقام پر آپﷺ نے جبریل امین کو اصلی صورت میں دیکھا، نیز اللہ جل شانہ کی تجلیات و انوارات کا مشاہدہ کیا، یہاں سے مقام صریف الاقلام اور پھر مقام صریف الاقلام سے بارگاہ ِ قدس میں پہنچے، وہاں بارگاہِ الہیٰ میں سجدہ بجالائے، اور بلاواسطہ کلامِ خداوندی سے سرفراز ہوئے۔ اسی موقع پر نمازیں فرض کی گئیں۔ یہاں سے واپسی پر آپ ﷺ دوبارہ بیت المقدس میں اترے، وہاں سے براق پر سوار ہوکر صبح سے قبل مکہ مکرمہ پہنچے۔یہ سفر معراج کا اجمالی خاکہ تھا۔

اب یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں

۔اس رات کی امت کےحق میں کیا فضیلت ہے؟

۔ یہ رات کونسی ہے؟

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ قرآن اور حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ ﷺ کا سفرِ معراج آپ ﷺ کا بہت بڑا اعزاز اور شرف تھا، لیکن امت کے حق میں اس بارے میں قرآن اور حدیث سے کسی قسم کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ہے۔شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ شبِ قدر اور شبِ معراج ان دونوں راتوں میں سے کون سی رات افضل ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی اکرم ﷺ کے حق میں لیلة المعراج افضل ہے اور امت کے حق میں لیلة القدر ، اس لیے کہ اِس رات میں جن انعامات سے نبی اکرم ﷺ کو مختص کیا گیا وہ ان (انعامات ) سے کہیں بڑھ کے ہیں جو (انعامات آپ ﷺ کو) شبِ قدر میں نصیب ہوئے،اور امت کو جو حصہ (انعامات)شبِ قدر میں نصیب ہوا ،وہ اس سے کامل ہے جو(امت کو شبِ معراج میں ) حاصل ہوا ، اگرچہ امتیوں کے لیے شبِ معراج میں بھی بہت بڑا اعزاز ہے؛ لیکن اصل فضل اور شرف اُس ہستی کے لیے ہے جِس کو معراج کروائی گئی۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ ﷺ کے سفرِ معراج کے سال،مہینے اور تاریخ کے بارے میں بھی بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔

سال( زمان ِسفر معراج) کی تعیین :

معراج کے سال کےبارے میں عموماً دس اقوال ملتے ہی:
(۱)معراج ہجرت سے ایک سال قبل کروائی گئی۔
(٢)معراج ہجرت سے آٹھ ماہ قبل ہوئی۔
(۳)ہجرت سے چھ ماہ قبل ہوئی۔
(۴) ہجرت سے گیارہ ماہ قبل ہوئی۔
(۵)ہجرت سے ایک سال اور دو ماہ قبل کی ہے۔
(۶)ہجرت سے ایک سال اور تین ماہ قبل کی ہے ۔
(۷)ہجرت سے ایک سال اور پانچ ماہ قبل کا قول نقل کیا ہے۔
(۸) ہجرت سے تین سال قبل کا قول اختیار کیا ہے۔
(۹)واقعہ معراج ہجرت سے پانچ سال قبل پیش آیا۔
(۱۰) ایک قول بعثت سے پہلے وقوعِ معراج کا بھی ہے، لیکن یہ قول شاذ ہے، اس کو تسلیم نہیں کیا گیا۔

مشہور سیرت نگار سید فضل الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ معراج نبوی سن دس نبوی کے بعد سن گیارہ نبوی میں طائف کے سفر سے واپسی کے بعد کسی مہینے میں ہوئی۔

ماہ کی تعیین

اسی طرح مہینے کی تعیین میں بھی اختلاف ہے کہ واقعہِ معراج کس مہینے میں پیش آیا، ربیع الاول ، ربیع الاخر، رجب، رمضان یا شوال ، یہ پانچ اقوال ملتے ہیں

 رات کی تعیین :

اسی طرح شبِ معراج کس روز اور کس تاریخ میں ہوئی؟اس بارے میں جمعہ ، ہفتہ اور پیرکے تین اقوال مشہور ہیں سُبُل الہدیٰ والرشاد: ۳/۶۵ ،دارالکتب العلمیہ ۔ :

تعین تاریخ :

تاریخ کے بارے میں سترہ ربیع الاول ،ستائیس ربیع الاول ، انتیس رمضان اور ستائیس ربیع الثانی کے اقوال ہیں ، علامہ ابن کثیر ؒ تمام اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ بعض احادیث میں جن کی سند صحیح نہیں ،یہ بھی وارد ہے کہ” اسرا” ستائیس رجب کو ہوئی۔

علماء ِسیر نے خوب تحقیق کے بعد اُن صحابہ کی تعداد اور نام لکھے ہیں ،جنہوں نے قصہٴ معراج کو نقل کیا ،کسی نے مختصر اور کسی نے تفصیل سے، چنانچہ علامہ زرقانی نے پینتالیس صحابہ کرام کے نام ذکر کئے ہیں،غرض یہ کہ کوئی قول کسی دلیل پر مبنی نہیں سب ہی محض خیالات ہیں۔
اس ساری تفصیل کے بعد قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس قصے کی تفصیل بیان کرنے والے اصحاب ِ رسول کی اتنی بڑی تعداد ہے اور اس کے باوجود جس رات میں یہ واقعہ پیش آیا ، نہ تو کسی صحابی نے اس رات کو کسی مخصوص عبادت کے لیے متعین کیا اور نہ ہی زبانِ نبوت سے اس بارے میں کوئی ارشاد صادر ہوا ،اور نہ ہی اس رات کی اس طرح سے تعظیم کسی صحابیِ رسول کے ذہن میں پیدا ہوئی،حتی کہ اس رات کی حتمی تاریخ بھی کسی نے بھی نقل نہیں کی، آخر اس شب سے اس قدر بے توجہی کی وجہ کیا ہے؟
تو اس کی وجہ یہ ہے کہ
اس رات یا دن سے متعلق کوئی حکم شرعی اور کسی قسم کی کوئی عبادت نہیں ہے اس لئے نہ توحضوراکرم ﷺ نے از خود اس کی طرف اشارہ کیا اور نہ ہی صحابہ کرام میں سے کسی نے اس کے بارے میں سوال کرنے کی ضرورت سمجھی، بلکہ اس کی تعیین کو ایک طرح سے لغو قرار دے کر اس بارے میں خاموشی اختیار کی

کیا 27 رجب کو یقینی طور پر شب معراج کی فضیلت کہا جاسکتا ہے

اس پوری تفصیل سے آپ خوداندازہ کر لیں کہ اگر شب معراج کی فضیلت بھی شبِ قدر کی فضیلت کی طرح کوئی مخصوص عبادت کی رات ہوتی،اور اس کے بارے میں کوئی خاص احکام ہوتے جس طرح شبِ قدر کے بارے میں ہیں، تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا؛لیکن چونکہ شب معراج کی تاریخ محفوظ نہیں تو اب یقینی طور سے ستائیس رجب کو شبِ معراج قرار دینا درست نہیں اور اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ آپ ﷺ ستائیس رجب کو ہی معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے ، جس میں یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا اور جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو یہ مقام ِ قرب عطا فرمایا اور اپنی بارگاہ میں حاضری کا شرف بخشا، اور امت کے لیے نمازوں کا تحفہ بھیجا، تو بے شک وہی ایک رات بڑی       فضیلت  والی تھی کسی مسلمان کواس

کی فضیلت  میں کیا شبہ ہو سکتا ہے ؟ لیکن یہ فضیلت ہر سال آنے والی ستائیس رجب شب  کو  حاصل نہیں

حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحہم اللہ تعالیٰ اور تبع تابعین رحہم اللہ تعالیٰ دین کو سب سے زیادہ جاننے والے ، دین کو خوب سمجھنے والے ، اور دین پر مکمل طور پر عمل کرنے والے تھے ، اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ان سے زیادہ دین کو جانتا ہوں ، یا ان سے زیادہ دین کا ذوق رکھنے والا ہوں، یا ان سے زیادہ عبادت گذار ہوں تو حقیقت میں وہ شخص پاگل ہے، وہ دین کی فہم نہیں رکھتا؛ لہٰذا اس رات میں عبادت کے لیے خاص اہتمام کرنا بدعت ہے ، یوں تو ہر رات میں اللہ تعالیٰ جس عبادت کی توفیق دے دیں وہ بہتر ہی بہتر ہے؛لہٰذا آج کی رات بھی جاگ لیں، لیکن اس رات میں اور دوسری راتوں میں کوئی فرق اور نمایاں امتیاز نہیں ہونا چاہئے

(اصلاحی خطبات :ج:۱،ص:۴۸-۵۲،میمن اسلامک پبلشرز )

 رجب میں کنڈے کی شرعی حیثیت

  1. اس مہینےمیں کسی نیک عمل کو فضیلت کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا جن بعض اعمال کوفضیلت کےساتھ کے بڑھا چڑہا کر بیان کیاجاتا ہے وہ محض فرضی قصے اور ضعیف و موضوع روایات پر مبنی داستانیں ہیں لہذا جواعمال کتاب وسنت سےثابت ہیں ان پر عمل کرنا چاہیئے  مسلمان اس ماہِ رجب میں کئی قسم کے کام کرتے ہیں مثلا صلاۃ الرغائب، نفلی روزں کا اہتمام ، ثواب کی نیت سے اس ماہ زکاۃ دینا ، 27 رجب کو شب معراج کی وجہ سے خصوصی عبادت کرنا، مساجد پر چراغاں کرنا جلسے وجلوس کااہتمام کرنا،آتش بازی  22رجب کو کونڈوں کی رسم اداکرنا اور اس جیسی دیگر خرافات پر عمل کرنایہ سب 
  2.  کام بدعات کے دائرے میں آتے ہیں لھذا ہر مسلمان کیلئے لازم و ضروری ہے کے وہ ان تمام کاموں سے مکمل اجتناب کرے

حضر ت اِمام جعفر صادق رحمہ اللہ  علیہ کی وِلادت

  • ٨رمضان ٨٠ ھ یا ٨٣ھ میں ہوئی اور وفات شوال ١٤٨ھ میں ہوئی پھر بائیسویں رجب کی تخصیص کرنا اور اِس تاریخ کو حضرت اِمام جعفر صادق رحمہ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرنا اور اس بنیاد پرکونڈوں کا اہتمام کرنے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟

 حضرت معاویہ رضی اللّہ عنہ کی وفات 

ہاں البتہ یہ بات ضرور ہے امیر المومنین امام المتقین مکرم کاتب وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص معتمد اور عصائے اسلام حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام اور مسلمانوں کی پچاس سال تک خدمت کرنے کے بعد وفات پائی تھی۔ 
 اصل بات کیا  ہے؟ 
 روافظ جس طرح امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خوشی میں ان کے مجوسی قاتل ابو لؤلؤفیروز کو بابا شجاع کہہ کر عید مناتے ہیں اسی طرح وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی رحلت کی خوشی میں 22 /رجب کو یہ تقریب مناتے ہیں ورنہ دَرحقیقت یہ تقریب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خوشی میں منائی 
جاتی ہے،
 
 

 اہلسنت والجماعت میں یہ رسم کیسے شروع ہوئی

 جس وقت یہ رسم اِیجاد ہوئی اہلِ سنت والجماعت کا غلبہ تھا، اِس لیے یہ اہتمام کیا گیا کہ شیرینی بطورِحصہ اِعلانیہ نہ تقسیم کی جائے، تاکہ راز فاش نہ ہو، بلکہ دُشمنانِ حضرت معاویہ خاموشی کے ساتھ ایک دُوسرے کے یہاں جاکر اُسی جگہ یہ شرینی کھالیں جہاں اُس کو رکھا گیا ہے اور اِس طرح اپنی  خوشی ومسرت ایک دُوسرے پر ظاہر کریں اور کسی کو معلوم بھی نہ چلے جب کچھ اِس کا چرچا ہوا تو اِس کو حضرت اِمام جعفر صادق رحمہ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرکے یہ تہمت اِمام 
موصوف پر لگائی کہ اُنہوں نے خود خاص اِس تاریخ میں اپنی فاتحہ کا حکم دیا ہے،
اور امت کو پیغام دیا ہے کہ
‘ 22 رجب کو کنڈے کرو اور میرے توسل سے مراد طلب کرو مراد پوری نہ ہو تو قیامت میں تمہارا ہاتھ اور میرا دامن ہوگا”۔
یہ بات بلا شک شبہ آپ رحمتہ اللہ پر کھلا بہتان اور تہمت ہے، 
(ذرا سی غور کرنے کی بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنی امت کے مصائب اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے ہر وقت غور و فکر میں رہتے تھے اس قسم کے کنڈے  خود پیار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز نہیں کیے تو  ایک ولی کس طرح یہ تجویز کر سکتا ہے؟)
ان کی طبیعت سازی اور اس پر فریب طریقے کار سے حضرت جعفر رحمۃ اللہ علیہ کے نام پر ہونے والی نیاز  میں کئی سادہ لوح ، توہم پرست  اور ضعیف الاعتقاد مسلمان بھی لاعلمی کی وجہ سے شریک ہوتے رہے
 

احتیاط کیجیئے

 لہٰذا برادرانِ اہلِ سنت کو ن تمام بدعتوں سے بہت دُور رہنا چاہیے، نہ خود اِس بدعت کو کرنا چاہیئے اور نہ اِس میں شرکت کرنی چاہئیے اور نہ ہی جانی اور مالی کسی قسم کی معاونت کرنی  چاہئیے ۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم.
مدرسہ: دار الدراسۃ الاسلامیہ 
 طریقہ تعاون 
جامعہ سے صدقات، خیرات، عطیات اور زکوٰة وغیرہ کی مد میں تعاون کے لیے یہاں پر کلک کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔📌 مدرسہ دار الدراسۃ الاسلامیہ 

 
 
 فیس بک لنک
 https://www.facebook.com/daruldirasaa
 
🪩 ویب سائٹ لنک 
Dirasaat.org
 
🪀 واٹس ایپ نمبر 
 03314447421 
 
 
█▓█ دار الدراسۃ الاسلامیہ  █▓█
 
        ♡ ㅤ   ❍ㅤ     ⎙      ⌲ 
       ˡᶦᵏᵉ    ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ    ˢᵃᵛᵉ     ˢʰᵃʳᵉ 
 
 
 
 
Follow our FaceBook Page: Click Here

For Contact Us: Click Here

6 thoughts on “ماہ رجب اور شب معراج کی فضیلت و حقیقت”

  1. ابو محمد احبان صدیقی

    ماشاءاللہ لاقوتہ الا باللہ
    بہت زبردست اور بہت اچھا مواد جمع کیا ہے
    اللہ پاک خوب برکت عطاء فرمائے اور ادارے کو خوب ترقی دے اور ادارے ۔کے اساتذہ اور کام کرنے والوں کے علم میں خوب برکت دے عافیت کا ساتھ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top