دار الدراسة الإسلامية

قربانی کی فضیلت اور اس کا حکم


قربانی کی اِبتداء

 حلال جانور کو بہ نیتِئ تقرب ذبح کرنے کی تارِیخ حضرت آدَم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل وقابیل کی قربانی سے ہی شروع ہوجاتی ہے،

یہ سب سے پہلی قربانی تھی، حق تعالیٰ جلَّ شانُہ کا اِرشاد ہے

وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْقَرَّ بَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ“۔(۱)

ترجمہ:۔”

اور آپ اہلِ کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجیے، جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دُوسرے کی قبول نہیں  کی گئی“۔

علامہ اِبن کثیر رحمہ اللہ نے اِس آیت کے تحت حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہ سے رِوایت نقل کی ہے کہ ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی، اُس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دِیا۔(۲)

اِس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا عبادت ہونا حضرت آدَم علیہ السلام کے زمانے سے ہے اور اس کی حقیقت تقریباً ہرملت میں رہی؛ البتہ اس کی خاص شان اور پہچان حضرت اِبراہیم و حضرت اِسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے ہوئی، اور اسی کی یادگار کے طور پراُمتِ محمدیہ پر قربانی کو واجب قرار دیا گیا

!قربانی کی حقیقت قرآنِ کریم   کی روشنی میں

قرآنِ کریم میں تقریباً نصف دَرجن آیاتِ مبارکہ میں قربانی کی حقیقت ، حکمت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ سورة حج میں ہے

۱-۲: وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ط کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ لَعْلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۳۶) لَنْ یَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ ط وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ(۳۷)“․(۳)

ترجمہ:۔”اور ہم نے تمہارے لیے قربانی کے اُونٹوں کو عبادتِ اِلٰہی کی نشانی اور یادگار مقرر کیا ہے، ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدے ہیں، سو تم اُن کو نحر کرتے وقت قطار میں کھڑا کرکے اُن پر اللہ کا نام لیا کرو اور پھر جب وہ اپنے پہلو پر گر پڑیں تو اُن کے گوشت میں سے ء خود بھی کھانا چاہو تو کھاوٴ اور فقیر کو بھی کھلاوٴ، خواہ وہ صبر سے بیٹھنے والا ہو یا سوال کرتا پھرتا ہو، جس طرح ہم نے اِن جانوروں کی قربانی کا حال بیان کیا، اِسی طرح اُن کو تمہارا تابع دار بنایا؛ تاکہ تم شکر بجالاوٴ!

اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا؛ بلکہ اس کے پاس تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اِس طرح مسخر کردِیا ہے؛ تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح راہ بتائی، اور اے ۔پیغمبر! مخلصین کو خوش خبری سنا دیجیے“

سورة حج ہی میں دوسرے مقام پر اسے شعائر اللہ میں سے قرار دیتے ہوئے اس کی عظمت بتائی گئی اورقربانی کی تعظیم کو دل میں پائے جانے والے تقویٰ خداوندی کا مظہر قرار دِیا ہے

وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ(۳۲)

ترجمہ:

”اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور یادگاروں کا پورا احترام قائم رَکھے تو ان شعائر کایہ احترام دِلوں کی پرہیزگاری سے ہواکرتا ہے

!پچھلی قوموں کی قربانی 

سابق انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتوں میں قربانی کا تسلسل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت تک پہنچتاہے، جس کا طریقہ یہ تھا کہ قربانی ذبح کی جاتی اور وقت کے نبی علیہ السلام دُعا مانگتے اور آسمان سے خاص کیفیت کی آگ اُترتی اور اُسے کھاجاتی جسےقبولیت کی علامت سمجھا جاتا تھا

!قربانی احادِیث مبارکہ کی روشنی میں

– عن عائشة رضی اللہ عنھا قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما عمل ابن آدم من عمل یوم النحر احب الی اللہ من اھراق الدم وانہ اتی یوم القیامة بقرونھا واشعارھا وظلافھا وان الدم لیقع من اللہ بمکان قبل ان یقع بالارض فطیبوا بھا نفسا“۔(۱۳

ترجمہ:۔”حضرت عائشہ رَضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اِبن آدم (اِنسان) نے قربانی کے دِن کوئی ایسا عمل نہیں کیا، جو اللہ کے نزدِیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادَہ پسندیدہ ہو، اور قیامت کے دِن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے، لہٰذا تم اس کی وَجہ سے (قربانی کرکے) اپنے دِلوں کو خوش کرو

دوسری حدیث مبارک 

 عن زید بن ارقم رضی اللہ عنہ قال: قال أصحاب رسول اللہ: یا رسول اللہ! ما ھذہ الأضاحی؟ قال: سنة أبیکم إبراھیم علیہ السلام، قالوا: فما لنا فیھا یا رسول اللہ؟ قال: بکل شعرة حسنة، قالوا: فالصوف؟ یا رسول اللہ! قال: بکل شعرة من الصوف حسنة“۔

(۱۴)

ترجمہ

”حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ راوِی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ک صحابہ رَضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ فرمایا: تمہارے باپ اِبراہیم علیہ السلام کا طریقہ (یعنی اُن کی سنت) ہے، صحابہ نے عرض کیا کہ پھر اس میں ہمارے لیے کیا (اجر وثواب) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: (جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی، اُنہوں نے عرض کیا کہ (دُنبہ وَغیرہ اگر ذبح کریں تو اُن کی) اُون (میں کیا ثواب ہے؟) فرمایا: کہ اُون کے ہربال کے بدلے ایک نیکی

!ایک اور روایت میں مذکور ہے

عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی یوم اضحیٰ: ما عمل آدمی فی ھذا الیوم افضل من دم یھراق إلا أن یکون رحماً توصل“۔(۱۵)

حضرت اِبن عباس سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے عید الاضحی کے دِن اِرشاد فرمایا: آج کے دِن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادَہ افضل عملنہیں کیا، ہاں! اگر کسی رِشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہو تو ہو“۔

*قربانی کافلسفہ*

دُوسرا (عید الاضحی) وہ دِن ہے کہ جس میں حضرت اِبراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اِسماعیل علیہ السلام کے ذبح (کااِرادہ کیا)، اور اللہ کا اُن پر اِنعام ہوا کہ حضرت اِسماعیل علیہ السلام کے بدلے عظیم ذبیحہ (جنتی مینڈھا) عطا فرمایا؛ اِس لیے کہ اس میں ملت اِبراہیمی کے ائمہ کے حالات کی یاد دِہانی ہے، اللہ کی اِطاعت میں اُن کے جان ومال کو خرچ کرنے اور اِنتہائی دَرجہ صبر کرنے کے وَاقعہ سے لوگوں کو عبرت دِلانا مقصود ہے، نیز اس میں حاجیوں کے ساتھ مشابہت ہے اور ان کی عظمت ہے اور جس کام میں وہ مشغول ہیں اُس میں اُن کو رَغبت دِلانا ہے، یہی وَجہ ہے کہ تکبیرات (تشریق) کو مسنون کیا گیا ہے“۔

*قربانی کی حقیقت*

۱:- قربانی سنت اِبراہیمی کی یادگار ہے۔

۲:- قربانی کی ایک صورَت ہے اور ایک رُوح ہے صورَت تو جانور کا ذبح کرنا ہے، اور اس کی حقیقت اِیثارِ نفس کا جذبہ پیدا کرنا ہے اور تقرب اِلی اللہ ہے۔(۲۲)

اصل میں قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتا؛ مگر خدا تعالیٰ کی رحمت دیکھئے، ان کو یہ گوارا نہ ہوا؛ اِس لیے حکم دِیاکہ تم جانور کو ذبح کرو ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود اپنے آپ کو قربان کردِیا۔ اِس وَاقعہ (ذبح اِسماعیل علیہ السلام) سے معلوم ہوا کہ ذبح کا اصل مقصد جان کو پیش کرنا ہے؛ چنانچہ اس سے اِنسان میں جاں سپارِی اور جاں نثارِی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اوریہی اس کی رُوح ہے تو یہ رُوح صدقہ سے کیسے حاصل ہوگی؟ کیونکہ قربانی کی رُوح تو جان دینا ہے اور صدقہ کی رُوح مال دینا ہے، نیز صدقہ کے لیے کوئی دِن مقرر نہیں؛ مگر اس کے لیے ایک خاص دِن مقرر کیا گیا ہے اور اس کا نام بھی یوم النحر اور یوم الاضحی رکھا گیا ہے

*قربانی کا حکم*

 قربانی کی دو قسمیں ہیں: ایک واجب، دوسری مستحب۔

اگر کوئی آدمی، عاقل، بالغ آزاد، مقیم، مسلمان اور مال دار ہو تو اس پر قربانی کرنا واجب ہے، اور قربانی نہ کرنے کی وجہ سے وہ گنہگار ہوگا

*وجوبِ قربانی کا نصاب*

قربانی ہر اُس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان پر واجب ہوتی ہے جو نصاب کا مالک ہو یا اس کی ملکیت میں ضرورتِ اصلیہ سے زائد اِتنا سامان ہو جس کی مالیت نصاب تک پہنچتی ہو اور اس کے برابر ہو، نصاب سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس ساڑھے سات تولہ صرف سونا یا ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا اُس کی قیمت کے برابر نقد رَقم ہو یا ضرورَتِ اصلیہ سے زائد اِتنا سامان ہو جس کی قیمت ساڑھے باوَن تولہ چاندی کے برابر ہو

ایک اہم وضاحت

وَاضح رہے کہ ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو اِنسان کی جان یا اس کی عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے ضروری ہو، اُس ضرورت کے پورا نہ ہونے کی صورت میں جان جانے یا ہتک آبرو کا اندیشہ ہو، مثلاً کھا نا، پینا، رہائش کا مکان، پہننے کے کپڑے، اہل صنعت و حرفت کے اوزار، سفر کی گاڑِی، سوارِی وَغیرہ، نیز اس کے لیے اُصول یہ ہے کہ جس پر صدقہ فطر واجب ہے اُس پر قربانی بھی واجب ہے یعنینصاب کے مال کا تجارَت کے لیے ہونا یا اُس پر سال گزرنا ضروری نہیں؛

(1)قربانی کے فضائل حدیث 

* مسند احمد کی روایت میں ایک حدیث پاک ہے، حضرت زید بن ارقمؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ: یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قربانی تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے ایک ایک بال کے عوض ایک نیکی ہے۔

(2 )قربانی کے فضائل حدیث 

حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قربانی کے دن اس سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں، قیامت کے دن قربانی کا جانور سینگوں، بالوںاور کھروں کے ساتھ لایا جائے گا اور خون کے زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے یہاں قبولیت کی سند لے لیتا ہے، اس لیے تم قربانی خوش دلی سے کرو۔

(3)قربانی کے فضائل حدیث 

عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں: قربانی سے زیادہ کوئی دوسرا عمل نہیں، الا یہ کہ رشتہ داری کا پاس کیا جائے۔ (طبرانی

(4)قربانی کے فضائل حدیث 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللّہ عنھا سے ارشاد فرمایا کہ: تم اپنی قربانی ذبح ہوتے وقت موجود رہو، کیونکہ پہلا قطرہ خون گرنے سے پہلے انسان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔

قربانی کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث ہیں، اس لیے اہل اسلام سے درخواست ہے کہ اس عبادت کو ہرگز ترک نہ کریں جو اسلام کے شعائر میں سے ہے۔ اور اس سلسلہ میں جن شرائط وآداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے،اُنہیں اپنے سامنے رکھیں اور قربانی کا جانور خوب دیکھ بھال کر خریدیں۔    

اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو قربانی کی روح اور حقیقت سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری یہ ظاہری قربانی حقیقی قربانی کے لیے پیش خیمہ ہو اور ہم اس ظاہری ومادی قربانی کی طرح اللہ کے حکم پر اپنی جان کی قربانی کے لیے بھی ہمیشہ تیار رہیں۔ واللّٰہ الموفق والمعین وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ محمد وآلہٖ وصحبہٖ أجمعین

 

*مدرسہ دار الدراسۃ الاسلامیہ*

*فیس بک لنک*

https://www.facebook.com/daruldirasaa

*ویب سائٹ لنک*

Dirasaat.org

*واٹس ایپ نمبر*

03314447421

Account Title:

Darul Dirassa Al-Islamiyah

Bank Name: Muslim Commercial Bank Islamic

Account No: *1004117330001*

IBAN: PK36MCIB0571004117330001

Branch Code: 057

█▓█ *دار الدراسۃ الاسلامیہ* █▓█

        ♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ ⌲

رمضان المبارک کے تیسرے عشرےکی فضیلت،اعمال،اوردعا

یوٹیوب چینل

https://youtube.com/@daruldirassa?si=2xpfgmLBNO5ZyUbl

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top